EN हिंदी
پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی | شیح شیری
paD gai jaise aql par miTTi

غزل

پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی

اکمل امام

;

پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی
خاک منزل ہے رہ گزر مٹی

موڑ سکتے ہیں گیلی ہونے تک
ٹوٹ جاتی ہے سوکھ کر مٹی

بے ضمیری جفا کشی نفرت
نام بدلے ہوئے ہے ہر مٹی

پھر بھی ظالم کی پیاس باقی ہے
ہو چکی ہے لہو میں تر مٹی

آؤ تازہ مصالحت کر لیں
پچھلی باتوں پہ ڈال کر مٹی

جتنے فرمان تھے بزرگوں کے
ہو گئے آج بے اثر مٹی

کپڑے سی سی کے گھر چلاتی ہے
ہے وہ کمبخت کتنی نر مٹی

انگلیوں کے ہنر سے اے اکملؔ
شکل پاتی ہے چاک پر مٹی