پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی
خاک منزل ہے رہ گزر مٹی
موڑ سکتے ہیں گیلی ہونے تک
ٹوٹ جاتی ہے سوکھ کر مٹی
بے ضمیری جفا کشی نفرت
نام بدلے ہوئے ہے ہر مٹی
پھر بھی ظالم کی پیاس باقی ہے
ہو چکی ہے لہو میں تر مٹی
آؤ تازہ مصالحت کر لیں
پچھلی باتوں پہ ڈال کر مٹی
جتنے فرمان تھے بزرگوں کے
ہو گئے آج بے اثر مٹی
کپڑے سی سی کے گھر چلاتی ہے
ہے وہ کمبخت کتنی نر مٹی
انگلیوں کے ہنر سے اے اکملؔ
شکل پاتی ہے چاک پر مٹی
غزل
پڑ گئی جیسے عقل پر مٹی
اکمل امام