کمان چھوڑ گئے بے نظیر جتنے تھے
لگے ہیں ٹھیک نشانے پہ تیر جتنے تھے
فساد روکنے کم ظرف لوگ پہنچے ہیں
گھروں میں رہ گئے روشن ضمیر جتنے تھے
انہیں جلا دیا سنجیدگی کے سورج نے
ہمارے عہد کے بچے شریر جتنے تھے
تھکن اتار رہے تھے نئے سفر کے لئے
سفر سے آئے ہوئے راہگیر جتنے تھے
مرے بیان پہ احساس ہو گئے زخمی
اگر بچے ہیں تو بس بے ضمیر جتنے تھے
بڑی لکیر برابر میں کھینچ آیا تھا
ملے ہیں ہم سے بھی چھوٹی لکیر جتنے تھے
قدم ہی رک گئے اکملؔ بس ایک فائر پر
فرار ہو گئے ہوتے اسیر جتنے تھے
غزل
کمان چھوڑ گئے بے نظیر جتنے تھے
اکمل امام