یا تو سورج جھوٹ ہے یا پھر یہ سایا جھوٹ ہے
آنکھ تو اس پر بھی حیراں ہے کہ کیا کیا جھوٹ ہے
مدتوں میں آج دل نے فیصلہ آخر دیا
خوبصورت ہی سہی لیکن یہ دنیا جھوٹ ہے
خون میں شامل اچھوتی خوشبوؤں کے ساتھ ساتھ
کیوں کہوں مجھ میں جو بہتا ہے وہ دریا جھوٹ ہے
زندگی کے بارے اتنا ہی کہا سچ جانئے
دشت میں بھٹکا ہوا جیسے بگولا جھوٹ ہے
غزل
یا تو سورج جھوٹ ہے یا پھر یہ سایا جھوٹ ہے
اختر شمار