EN हिंदी
ترے بغیر مسافت کا غم کہاں کم ہے | شیح شیری
tere baghair masafat ka gham kahan kam hai

غزل

ترے بغیر مسافت کا غم کہاں کم ہے

اختر شمار

;

ترے بغیر مسافت کا غم کہاں کم ہے
مگر یہ دکھ کہ مری عمر رائیگاں کم ہے

مری نگاہ کی وسعت بھی اس میں شامل کر
مری زمین پہ تیرا یہ آسماں کم ہے

تجھے خبر بھی کہاں ہے مرے ارادوں کی
تو میری سوچتی آنکھوں کا راز داں کم ہے

اسی سے ہو گئے مانوس طائران چمن
وہ جو کہ باغ کا دشمن ہے باغباں کم ہے

اگرچہ شہر میں پھیلی کہانیاں ہیں بہت
کوئی بھی سننے سنانے کو داستاں کم ہے

نگاہ و دل پہ کھلی ہیں حقیقتیں کیسی
یہ دل اداس زیادہ ہے شادماں کم ہے

اب اس سے بڑھ کے بھی کوئی ہے پل صراط ابھی
میں جی رہا ہوں یہاں جیسے امتحاں کم ہے