پڑے تھے ہم بھی جہاں روشنی میں بکھرے ہوئے
کئی ستارے ملے اس گلی میں بکھرے ہوئے
مری کہانی سے پہلے ہی جان لے پیارے
کہ حادثے ہیں مری زندگی میں بکھرے ہوئے
دھنک سی آنکھ کہے بانسری کی لے میں مجھے
ستارے ڈھونڈ کے لا نغمگی میں بکھرے ہوئے
میں پر سکون رہوں جھیل کی طرح یعنی
کسی خیال کسی خامشی میں بکھرے ہوئے
وہ مسکرا کے کوئی بات کر رہا تھا شمارؔ
اور اس کے لفظ بھی تھے چاندنی میں بکھرے ہوئے
غزل
پڑے تھے ہم بھی جہاں روشنی میں بکھرے ہوئے
اختر شمار