ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا
اور اس کے بعد فقط آندھیوں کو آنا تھا
میں گھر کو پھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ
کہ تیری راہ میں پہلا قدم اٹھانا تھا
وگرنہ کون اٹھاتا یہ جسم و جاں کے عذاب
یہ زندگی تو محبت کا اک بہانہ تھا
یہ کون شخص مجھے کرچیوں میں بانٹ گیا
یہ آئنہ تو مرا آخری ٹھکانہ تھا
پہاڑ بھانپ رہا تھا مرے ارادے کو
وہ اس لیے بھی کہ تیشہ مجھے اٹھانا تھا
بہت سنبھال کے لایا ہوں اک ستارے تک
زمین پر جو مرے عشق کا زمانہ تھا
ملا تو ایسے کہ صدیوں کی آشنائی ہو!
تعارف اس سے بھی حالانکہ غائبانہ تھا
میں اپنی خاک میں رکھتا ہوں جس کو صدیوں سے
یہ روشنی بھی کبھی میرا آستانہ تھا
میں ہاتھ ہاتھوں میں اس کے نہ دے سکا تھا شمارؔ
وہ جس کی مٹھی میں لمحہ بڑا سہانا تھا
غزل
ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا
اختر شمار