تیرا ہر راز چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
خود کو دیوانہ بنائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
ساقیٔ بزم کے مخصوص اشاروں کی قسم
جام ہونٹوں سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
اس نمائش گہہ عالم میں کمی ہے اب تک
اشک آنکھوں میں چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
شب کی دیوی کا سکوت اور ہی کچھ کہتا ہے
پھر بھی دو شمعیں جلائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
میری اک آرزوئے دید کا اعجاز نہ پوچھ
منہ کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
یاد بھی تیری اک آزار مسلسل ہے مگر
اپنے سینے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
ہم کو معلوم ہے اخترؔ کہ ہماری خاطر
ایک عالم کو بھلائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
غزل
تیرا ہر راز چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
اختر صدیقی