EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر دم بدن کی قید کا رونا فضول ہے
موسم صدائیں دے تو بکھر جانا چاہئے

اکھلیش تیواری




جسے پرچھائیں سمجھے تھے حقیقت میں نہ پیکر ہو
پرکھنا چاہئے تھا آپ کو اس شے کو چھو کر بھی

اکھلیش تیواری




خیال آیا ہمیں بھی خدا کی رحمت کا
سنائی جب بھی پڑی ہے اذان پنجرے میں

اکھلیش تیواری




کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے
یہ بند کمرہ عجب روشنی سے بھر جائے

اکھلیش تیواری




پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا
سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے

اکھلیش تیواری




قدم بڑھا تو لوں آبادیوں کی سمت مگر
مجھے وہ ڈھونڈھتا تنہائیوں میں آیا تو

اکھلیش تیواری




صبح سویرا دفتر بیوی بچے محفل نیندیں رات
یار کسی کو مشکل بھی ہوتی ہے اس آسانی پر

اکھلیش تیواری