نہ دھوپ دھوپ رہے اور نہ سایا سایا تو
جنون شوق اگر پھر وہیں پہ لایا تو
قدم بڑھا تو لوں آبادیوں کی سمت مگر
مجھے وہ ڈھونڈھتا تنہائیوں میں آیا تو
سلوک خود سے حریفانہ کون چاہے گا
اگرچہ تو نے مجھے زندگی نبھایا تو
میں جس کی اوٹ میں موسم کی مار سہتا ہوں
کہیں کھنڈر بھی وہ بارش نے اب کے ڈھایا تو
مگر گئی نہ مہک مجھ سے میرے ماضی کی
ندی کی دھار میں سو بار میں نہایا تو
شریف لوگ تھے عادی تھے بند کمروں کے
لرز اٹھے کسی نے قہقہہ لگایا تو
ہے رسم و راہ کی صورت ابھی غنیمت ہے
ندی نے دیکھ مجھے ہاتھ پھر ہلایا تو
غزل
نہ دھوپ دھوپ رہے اور نہ سایا سایا تو
اکھلیش تیواری