ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے
مگر یہ پیاس مجھے چھوڑ دے تو مر جائے
کبھی تو دل یہی اکسائے خامشی کے خلاف
لبوں کا کھلنا ہی اس کو کبھی اکھر جائے
کبھی تو چل پڑے منزل ہی راستے کی طرح
کبھی یہ راہ بھی چل چل کے پھر ٹھہر جائے
کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے
یہ بند کمرہ عجب روشنی سے بھر جائے
یہ تیرا دھیان کہ سہما پرندہ ہو کوئی
ذرا سی سانس کی آہٹ بھی ہو تو ڈر جائے
بہت سنبھال کے درپن انا ہے یہ اکھلیشؔ
ذرا سی چوک سے ایسا نہ ہو بکھر جائے
غزل
ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے
اکھلیش تیواری