گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے
جو خوب لٹائی تھی وہ شے پائی بہت ہے
پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا
سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے
ڈرتا ہوں کہیں خود سے نہ ہو جائے ملاقات
اس دل کی گزر گاہ میں تنہائی بہت ہے
پربت سی حقیقت بھی دلیلوں میں پڑے کم
بے پر کی اڑانا ہو تو بس رائی بہت ہے
کیا دیکھ کے لوٹے ہیں محبت کی گلی سے
کیا بات ہے آواز کیوں بھرائی بہت ہے
غزل
گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے
اکھلیش تیواری