EN हिंदी
گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے | شیح شیری
gutthi na sulajh pai go suljhai bahut hai

غزل

گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے

اکھلیش تیواری

;

گتھی نہ سلجھ پائی گو سلجھائی بہت ہے
جو خوب لٹائی تھی وہ شے پائی بہت ہے

پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا
سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے

ڈرتا ہوں کہیں خود سے نہ ہو جائے ملاقات
اس دل کی گزر گاہ میں تنہائی بہت ہے

پربت سی حقیقت بھی دلیلوں میں پڑے کم
بے پر کی اڑانا ہو تو بس رائی بہت ہے

کیا دیکھ کے لوٹے ہیں محبت کی گلی سے
کیا بات ہے آواز کیوں بھرائی بہت ہے