ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر
پڑھیے تو کیا کیا لکھا ہے دریا کی پیشانی پر
مہنگائی ہے دام ملیں گے سوچا تھا ہم نے لیکن
شرمندہ ہو کر لوٹے ہیں خوابوں کی ارزانی پر
اب تک اجڑے پن میں شاید کچھ نظاروں لائق ہے
ورنہ جمگھٹ کیوں امڈا رہتا ہے اس ویرانی پر
رات جو آنکھوں میں چمکے جگنو میں ان کا شاہد ہوں
آپ بھلے چرچا کریے اب سورج کی تابانی پر
صبح سویرا دفتر بیوی بچے محفل نیندیں رات
یار کسی کو مشکل بھی ہوتی ہے اس آسانی پر
اس کی سپنوں والی پریاں کیوں میں دیکھ نہیں پاتا
بچہ حیراں ہے مجھ پر میں بچے کی حیرانی پر
ایک اچھوتا منظر مجھ کو چھو کر گزرا تھا اب تو
پچھتانا ہے خود میں ڈوبے رہنے کی نادانی پر
ہم فنکاروں کی فطرت سے واقف ہو تم تو اکھلیشؔ
مقصد سمجھو رک مت جانا بس لفظوں کے معنی پر
غزل
ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر
اکھلیش تیواری