EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زمانے سے محبت کا ابھی تک
یہ حاصل ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہے

اخلاق بندوی




چٹک میں غنچے کی وہ صورت جاں فزا تو نہیں
سنی ہے پہلے بھی آواز یہ کہیں میں نے

اختر علی اختر




فریب جلوہ کہاں تک بروئے کار رہے
نقاب اٹھاؤ کہ کچھ دن ذرا بہار رہے

اختر علی اختر




گفتگوئے صورت و معنی ہے عنوان حیات
کھیلتے ہیں وہ مری فطرت کی حیرانی کے ساتھ

اختر علی اختر




مجھی کو پردۂ ہستی میں دے رہا ہے فریب
وہ حسن جس کو کیا جلوہ آفریں میں نے

اختر علی اختر




تم نے ہر ذرے میں برپا کر دیا طوفان شوق
اک تبسم اس قدر جلووں کی طغیانی کے ساتھ

اختر علی اختر




بدن کے شہر میں آباد اک درندہ ہے
اگرچہ دیکھنے میں کتنا خوش لباس بھی ہے

اختر امان