کاغذ پہ حرف حرف نکھر جانا چاہئے
بے چہرگی کو رنگ میں بھر جانا چاہئے
ممکن ہے آسمان کا رستہ انہیں سے ہو
نیلے سمندروں میں اتر جانا چاہئے
ہر دم بدن کی قید کا رونا فضول ہے
موسم صدائیں دے تو بکھر جانا چاہئے
صحرا میں کون بھیک کسے دے گا چھاؤں کی
خود اپنی اوٹ میں ہی ٹھہر جانا چاہئے
تنہا سفر میں رات کے اس پچھلے وقت میں
آواز کوئی دے تو کدھر جانا چاہئے
جس سے بچھڑ کے ہو گئے صحرا نورد ہم
اب تک تو اس کے زخم بھی بھر جانا چاہئے
پانی کو روکتی ہو جو اکھلیشؔ جی انا
خود پیاس کو ندی میں اتر جانا چاہئے
غزل
کاغذ پہ حرف حرف نکھر جانا چاہئے
اکھلیش تیواری