کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی
بھٹکتا ہے کوئی باہر تو کوئی گھر کے بھیتر بھی
کسی کو آس بادل سے کوئی دریاؤں کا طالب
اگر ہے تشنہ لب صحرا تو پیاسا ہے سمندر بھی
شکستہ خواب کی کرچیں پڑی ہیں آنکھ میں شاید
نظر میں چبھتا ہے جب تب ادھورا سا وہ منظر بھی
سراغ اس سے ہی لگ جائے مرے ہونے نہ ہونے کا
گزر کر دیکھ ہی لیتا ہوں اپنے میں سے ہو کر بھی
جسے پرچھائیں سمجھے تھے حقیقت میں نہ پیکر ہو
پرکھنا چاہئے تھا آپ کو اس شے کو چھو کر بھی
پلٹ کر مدتوں بعد اپنی تحریروں سے گزروں تو
لگے اکثر کہ ہو سکتا تھا اس سے اور بہتر بھی
غزل
کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی
اکھلیش تیواری