EN हिंदी
کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی | شیح شیری
kise jaana kahan hai munhasir hota hai is par bhi

غزل

کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی

اکھلیش تیواری

;

کسے جانا کہاں ہے منحصر ہوتا ہے اس پر بھی
بھٹکتا ہے کوئی باہر تو کوئی گھر کے بھیتر بھی

کسی کو آس بادل سے کوئی دریاؤں کا طالب
اگر ہے تشنہ لب صحرا تو پیاسا ہے سمندر بھی

شکستہ خواب کی کرچیں پڑی ہیں آنکھ میں شاید
نظر میں چبھتا ہے جب تب ادھورا سا وہ منظر بھی

سراغ اس سے ہی لگ جائے مرے ہونے نہ ہونے کا
گزر کر دیکھ ہی لیتا ہوں اپنے میں سے ہو کر بھی

جسے پرچھائیں سمجھے تھے حقیقت میں نہ پیکر ہو
پرکھنا چاہئے تھا آپ کو اس شے کو چھو کر بھی

پلٹ کر مدتوں بعد اپنی تحریروں سے گزروں تو
لگے اکثر کہ ہو سکتا تھا اس سے اور بہتر بھی