محو حیرت ہوں خراش دست غم کو دیکھ کر
زخم چہرے پر ہیں یا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا
عاجز ماتوی
میں جن کو اپنا کہتا ہوں کب وہ مرے کام آتے ہیں
یہ سارا سنسار ہے سپنا سب جھوٹے رشتے ناطے ہیں
عاجز ماتوی
منتظر ہوں میں کفن باندھ کے سر سے عاجزؔ
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آیا اب تک
عاجز ماتوی
ستم یہ ہے وہ کبھی بھول کر نہیں آیا
تمام عمر رہا جس کا انتظار مجھے
عاجز ماتوی
آرزو تھی کھینچتے ہم بھی کوئی عکس حیات
کیا کریں اب کے لہو آنکھوں سے ٹپکا ہی نہیں
اجمل اجملی
اجملؔ نہ آپ سا بھی کوئی سخت جاں ملا
دیکھیں ہیں ہم نے یوں تو ستم آشنا بہت
اجمل اجملی
ہزار منزل غم سے گزر چکے لیکن
ابھی جنون محبت کی ابتدا بھی نہیں
اجمل اجملی