کیوں کہوں کوئی قد آور نہیں آیا اب تک
ہاں مرے قد کے برابر نہیں آیا اب تک
ایک مدت سے ہوں میں سینہ سپر میداں میں
حملہ آور کوئی بڑھ کر نہیں آیا اب تک
یہ تو دریا ہیں جو آپے سے گزر جاتے ہیں
جوش میں ورنہ سمندر نہیں آیا اب تک
ہوں گے منزل سے ہم آغوش یہ امید بندھی
راستے میں کوئی پتھر نہیں آیا اب تک
کیا زمانے میں کوئی گوش بر آواز نہیں
کوئی بھی دل کی صدا پر نہیں آیا اب تک
جانے کیا بات ہے ساقی کہ تری محفل میں
جو گیا بڑھ وہ پلٹ کر نہیں آیا اب تک
انتہا یہ ہے کہ پتھرا گئیں آنکھیں اپنی
سامنے وہ پری پیکر نہیں آیا اب تک
کیا کرشمہ ہے در اشک محبت اپنا
صدف چشم سے باہر نہیں آیا اب تک
منتظر ہوں میں کفن باندھ کے سر سے عاجزؔ
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آیا اب تک
غزل
کیوں کہوں کوئی قد آور نہیں آیا اب تک
عاجز ماتوی