جہاں نہ دل کو سکون ہے نہ ہے قرار مجھے
یہ کس مقام پہ لے آئی یاد یار مجھے
یہ بات سچ ہے میں برگ خزاں رسیدہ ہوں
مگر سلام کیا کرتی ہے بہار مجھے
ستم یہ ہے وہ کبھی بھول کر نہیں آیا
تمام عمر رہا جس کا انتظار مجھے
بس اپنے آپ سنورنا بھی کوئی بات ہوئی
تو اپنی زلف کی صورت کبھی سنوار مجھے
عبث ہے دوستو تشریح وعدۂ فردا
اب اس کا ذکر بھی ہوتا ہے ناگوار مجھے
تمام عمر جھلستا رہا میں صحرا میں
کہیں شجر نظر آیا نہ سایہ دار مجھے
بہار نو یہ حقیقت ہے یا فریب نگاہ
لباس گل نظر آتا ہے تار تار مجھے
گناہ جس سے نہ سرزد ہوا ہو اے عاجزؔ
اسی کو حق ہے وہ کہہ دے گناہ گار مجھے
غزل
جہاں نہ دل کو سکون ہے نہ ہے قرار مجھے
عاجز ماتوی