جب کبھی مد مقابل وہ رخ زیبا ہوا
آئینہ بھی رہ گیا حیرت سے منہ تکتا ہوا
فصل گل میں ہے شکست و ریخت کا آئینہ دار
ایک اک تنکا نشیمن کا مرے بکھرا ہوا
محو حیرت ہوں خراش دست غم کو دیکھ کر
زخم چہرے پر ہیں یا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا
ابر غم برسے تو اشکوں کی روانی دیکھنا
ساحل مژگاں پہ ہے طوفاں ابھی ٹھہرا ہوا
اختلاف ذہن فطرت زندگانی کا سراب
اشتراک باہمی ہی موجب دریا ہوا
جب میں ان سے کہہ چکا اپنی حدیث رنج و غم
ان کی شوخی دیکھیے کہنے لگے پر کیا ہوا
میں سمجھ پایا نہ عاجزؔ یہ طلسم راہ بر
ہر قدم پر منزل مقصود کا دھوکا ہوا
غزل
جب کبھی مد مقابل وہ رخ زیبا ہوا
عاجز ماتوی