EN हिंदी
راستے کے پیچ و خم کیا شے ہیں سوچا ہی نہیں | شیح شیری
raste ke pech-o-KHam kya shai hain socha hi nahin

غزل

راستے کے پیچ و خم کیا شے ہیں سوچا ہی نہیں

اجمل اجملی

;

راستے کے پیچ و خم کیا شے ہیں سوچا ہی نہیں
ہم سفر پر جب سے نکلے مڑ کے دیکھا ہی نہیں

دو گھڑی رک کر ٹھہر کر سوچتے منزل کی بات
راستے میں کوئی ایسا موڑ آیا ہی نہیں

زندگی کے ساتھ ہم نکلے تھے لے کر کتنے خواب
زندگی بھی ختم ہے موسم بدلتا ہی نہیں

اک دیا یادوں کا تھا روشن تھی جس سے بزم شب
جانے کیا گزری کئی راتوں سے جلتا ہی نہیں

زندگی بھر پے بہ پے ہم نے کریدے اپنے زخم
ہم سے چھٹ کر اس پہ کیا گزری یہ سوچا ہی نہیں

آرزو تھی کھینچتے ہم بھی کوئی عکس حیات
کیا کریں اب کے لہو آنکھوں سے ٹپکا ہی نہیں

اس طرح کیسے ہو اجملؔ چارۂ دل کی امید
درد اپنا آخری حد سے گزرتا ہی نہیں