بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا
اجمل صدیقی
دل تو سادہ ہے تیری ہر بات کو سچا مانتا ہے
عقل نے باتیں کرتے تیرا آنکھ چرانا دیکھا ہے
اجمل صدیقی
ہر ایک صبح وضو کرتی ہیں مری آنکھیں
کہ شاید آج تو آ جائے وہ حبیب نظر
اجمل صدیقی
جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا
اجمل صدیقی
کبھی خوف تھا ترے ہجر کا کبھی آرزو کے زوال کا
رہا ہجر و وصل کے درمیاں تجھے کھو سکا نہ میں پا سکا
اجمل صدیقی
کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا
اجمل صدیقی
میرے ساتھ سوئے جنون چل مرے زخم کھا مرا رقص کر
میرے شعر پڑھ کے ملے گا کیا پتا پڑھ کے گھر کوئی پا سکا؟
اجمل صدیقی