EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا

اجمل صدیقی




دل تو سادہ ہے تیری ہر بات کو سچا مانتا ہے
عقل نے باتیں کرتے تیرا آنکھ چرانا دیکھا ہے

اجمل صدیقی




ہر ایک صبح وضو کرتی ہیں مری آنکھیں
کہ شاید آج تو آ جائے وہ حبیب نظر

اجمل صدیقی




جس دن سے گیا وہ جان غزل ہر مصرعے کی صورت بگڑی
ہر لفظ پریشاں دکھتا ہے، اس درجہ ورق نمناک ہوا

اجمل صدیقی




کبھی خوف تھا ترے ہجر کا کبھی آرزو کے زوال کا
رہا ہجر و وصل کے درمیاں تجھے کھو سکا نہ میں پا سکا

اجمل صدیقی




کیا کیا نہ پڑھا اس مکتب میں، کتنے ہی ہنر سیکھے ہیں یہاں
اظہار کبھی آنکھوں سے کیا کبھی حد سے سوا بے باک ہوا

اجمل صدیقی




میرے ساتھ سوئے جنون چل مرے زخم کھا مرا رقص کر
میرے شعر پڑھ کے ملے گا کیا پتا پڑھ کے گھر کوئی پا سکا؟

اجمل صدیقی