EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ گرم گرم سے آنسو بتا رہے ہیں یہی
ضرور آگ کہیں دل کے آس پاس لگی

اجیت سنگھ حسرت




آغاز محبت میں عاجزؔ رکتی نہ تھی موج اشک رواں
انجام اب ان خشک آنکھوں سے اک اشک نکلنا مشکل ہے

عاجز ماتوی




ایک ہم ہیں ہم نے کشتی ڈال دی گرداب میں
ایک تم ہو ڈرتے ہو آتے ہوئے ساحل کے پاس

عاجز ماتوی




حسرتیں آ آ کے جمع ہو رہی ہیں دل کے پاس
کارواں گویا پہنچنے والا ہے منزل کے پاس

عاجز ماتوی




ہو بجلیوں کا مجھ سے جہاں پر مقابلہ
یارب وہیں چمن میں مجھے آشیانہ دے

عاجز ماتوی




ہوتا ہے محسوس یہ عاجزؔ شاید اس نے دستک دی
تیز ہوا کے جھونکے جب دروازے سے ٹکراتے ہیں

عاجز ماتوی




انسان حادثات سے کتنا قریب ہے
تو بھی ذرا نکل کے کبھی اپنے گھر سے دیکھ

عاجز ماتوی