جب بھی ملتا ہوں وہی چہرہ لیے
بد دعا دیتا ہے آئینہ مجھے
اجمل اجملی
کتنی طویل کیوں نہ ہو باطل کی زندگی
ہر رات کا ہے صبح مقدر نہ بھولنا
اجمل اجملی
ماں نے لکھا ہے خط میں جہاں جاؤ خوش رہو
مجھ کو بھلے نہ یاد کرو گھر نہ بھولنا
اجمل اجملی
تار نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہے
وہ پیاس ہے ملے تو سمندر سمیٹ لوں
اجمل اجملی
آس پہ تیری بکھرا دیتا ہوں کمرے کی سب چیزیں
آس بکھرنے پر سب چیزیں خود ہی اٹھا کے رکھتا ہوں
اجمل صدیقی
الگ الگ تاثیریں ان کی، اشکوں کے جو دھارے ہیں
عشق میں ٹپکیں تو ہیں موتی، نفرت میں انگارے ہیں
اجمل صدیقی
بازار میں اک چیز نہیں کام کی میرے
یہ شہر مری جیب کا رکھتا ہے بھرم خوب
اجمل صدیقی