EN हिंदी
تری نظر بھی نہیں حرف مدعا بھی نہیں | شیح شیری
teri nazar bhi nahin harf-e-muddaa bhi nahin

غزل

تری نظر بھی نہیں حرف مدعا بھی نہیں

اجمل اجملی

;

تری نظر بھی نہیں حرف مدعا بھی نہیں
خدا گواہ مرے پاس کچھ رہا بھی نہیں

ہزار منزل غم سے گزر چکے لیکن
ابھی جنون محبت کی ابتدا بھی نہیں

غم فراق یہ شب کس طرح سے گزرے گی
کہ اب تو آس کی موہوم سی ضیا بھی نہیں

نہ جانے کس لئے اب بھی ہے دل سے بڑھ کے عزیز
سیاہ دل بھی نہیں اور پارسا بھی نہیں

جو سچ کہوں تو محبت شعار اجملؔ میں
ہزار عیب سہی آدمی برا بھی نہیں