EN हिंदी
مے خانہ پر کالے بادل جب گھر گھر کر آتے ہیں | شیح شیری
mai-KHane par kale baadal jab ghir ghir kar aate hain

غزل

مے خانہ پر کالے بادل جب گھر گھر کر آتے ہیں

عاجز ماتوی

;

مے خانہ پر کالے بادل جب گھر گھر کر آتے ہیں
ہم بھی آنکھوں کے پیمانے بھر بھر کر چھلکاتے ہیں

میں جن کو اپنا کہتا ہوں کب وہ مرے کام آتے ہیں
یہ سارا سنسار ہے سپنا سب جھوٹے رشتے ناطے ہیں

تنہائی کے بوجھل لمحے ہم اس طرح بتاتے ہیں
دل ہم کو دیتا ہے تسلی ہم دل کو سمجھاتے ہیں

جیون کی گتھی کا سلجھنا کام ہے اک نا ممکن سا
گرہیں پڑتی ہی جاتی ہیں ہم جتنا سلجھاتے ہیں

ان کی قسمت میں جلنا ہے کون ان سے کہتا ہے جلیں
پروانے دیپک پر آ کر اپنے آپ جل جاتے ہیں

جیون بیتا لیکن اب تک میں نہ سمجھ پایا یہ بھید
بیتے دنوں کی یاد آتے ہی آنسو کیوں بھر آتے ہیں

وہ جب اپنا سر ڈھکتے ہیں کھل جاتے ہیں ان کے پیر
جو اپنی چادر سے زیادہ پیر اپنے پھیلاتے ہیں

ہوتا ہے محسوس یہ عاجزؔ شاید اس نے دستک دی
تیز ہوا کے جھونکے جب دروازے سے ٹکراتے ہیں