جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں
جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے
اعتبار ساجد
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
اعتبار ساجد
جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی
اعتبار ساجد
کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ
میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں
اعتبار ساجد
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
اعتبار ساجد
میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں
جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں
اعتبار ساجد
مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے
اعتبار ساجد