میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں
جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں
کسی نے جھانک کر دیکھا نہ دل میں
کہ میں اندر سے کیسا ہو رہا ہوں
جو دل پر داغ ہیں پچھلی رتوں کے
انہیں اب آنسوؤں سے دھو رہا ہوں
سبھی پرچھائیاں ہیں ساتھ لیکن
بھری محفل میں تنہا ہو رہا ہوں
مجھے ان نسبتوں سے کون سمجھا
میں رشتے میں کسی کا جو رہا ہوں
میں چونک اٹھتا ہوں اکثر بیٹھے بیٹھے
کہ جیسے جاگتے میں سو رہا ہوں
کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ
میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں
غزل
میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں
اعتبار ساجد