EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جی لگا رکھا ہے یوں تعبیر کے اوہام سے
زندگی کیا ہے میاں بس ایک گھر خوابوں کا ہے

عین تابش




میں اپنا کار وفا آزماؤں گا پھر بھی
کہاں میں تیرے ستم یاد کرنے والا ہوں

عین تابش




میں اس گھڑی اپنے آپ کا سامنا بھی کرنے سے بھاگتا ہوں
وہ زینہ زینہ اترنے والی شبیہ جب مجھ میں جاگتی ہے

عین تابش




روز اک مرگ کا عالم بھی گزرتا ہے یہاں
روز جینے کے بھی سامان نکل آتے ہیں

عین تابش




تو جو اس دنیا کی خاطر اپنا آپ گنواتا ہے
اے دل من اے میرے مسافر کام ہے یہ نادانوں کا

عین تابش




انجان اگر ہو تو گزر کیوں نہیں جاتے
پہچان رہے ہو تو ٹھہر کیوں نہیں جاتے

عیش برنی




اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لیے
تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے

عیش دہلوی