بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی
جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی
دیئے بجھا کے سر شام سو گیا تھا وہ
بتائی سو کے شب ماہتاب میں نے بھی
یہی نہیں کہ مجھے اس نے درد ہجر دیا
جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی
کسی نے خون میں تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں
لکھی ہے خون جگر سے کتاب میں نے بھی
خزاں کا وار بہت کار گر تھا دل پہ مگر
بہت بچا کے رکھا یہ گلاب میں نے بھی
غزل
بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
اعتبار ساجد