EN हिंदी
بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی | شیح شیری
bahut sajae the aankhon mein KHwab maine bhi

غزل

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی

اعتبار ساجد

;

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

دیئے بجھا کے سر شام سو گیا تھا وہ
بتائی سو کے شب ماہتاب میں نے بھی

یہی نہیں کہ مجھے اس نے درد ہجر دیا
جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی

کسی نے خون میں تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں
لکھی ہے خون جگر سے کتاب میں نے بھی

خزاں کا وار بہت کار گر تھا دل پہ مگر
بہت بچا کے رکھا یہ گلاب میں نے بھی