EN हिंदी
مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے | شیح شیری
mera hai kaun dushman meri chahat kaun rakhta hai

غزل

مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے

اعتبار ساجد

;

مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے
اسی پر سوچتے رہنے کی فرصت کون رکھتا ہے

مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے

نہیں ہے نرخ کوئی میرے ان اشعار تازہ کا
یہ میرے خواب ہیں خوابوں کی قیمت کون رکھتا ہے

در خیمہ کھلا رکھا ہے گل کر کے دیا ہم نے
سو اذن عام ہے لو شوق رخصت کون رکھتا ہے

مرے دشمن کا قد اس بھیڑ میں مجھ سے تو اونچا ہو
یہی میں ڈھونڈھتا ہوں ایسی قامت کون رکھتا ہے

ہمارے شہر کی رونق ہے کچھ مشہور لوگوں سے
مگر سب جانتے ہیں کیسی شہرت کون رکھتا ہے