مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں
جو سراب ہوں نہ عذاب ہوں وہ رفاقتیں مجھے چاہئیں
انہیں ساعتوں کی تلاش ہے جو کیلنڈروں سے اتر گئیں
جو سمے کے ساتھ گزر گئیں وہی فرصتیں مجھے چاہئیں
کہیں مل سکیں تو سمیٹ لا مرے روز و شب کی کہانیاں
جو غبار وقت میں چھپ گئیں وہ حکایتیں مجھے چاہئیں
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
تری قربتیں نہیں چاہئیں مری شاعری کے مزاج کو
مجھے فاصلوں سے دوام دے تری فرقتیں مجھے چاہئیں
مجھے اور کچھ نہیں چاہئے یہ دعائیں ہیں مرے سائباں
کڑی دھوپ میں کہیں مل سکیں تو یہی چھتیں مجھے چاہئیں
غزل
مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں
اعتبار ساجد