پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
شام کریں کیسے اس دن کی ٹھنڈی صورت دیکھیں کن کی
ادھر ادھر تو دھواں اڑاتی آگ اگلتی خلقت ہے
جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں
جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے
پھول ببول کے اچھے ہیں لیکن ساکت تصویروں میں
سچ مچ کے صحراؤں کی تو اس دل جیسی صورت ہے
تیرے بعد دکانوں پر میں جا کر پوچھتا رہتا ہوں
کیا وہ خوشبو مل سکتی ہے اب اس کی کیا قیمت ہے
بڑے بڑے سپنے نہیں بوئے میں نے اپنے آنگن میں
ننھی منی خوشیاں ہیں مری چھوٹی سی اک جنت ہے
غزل
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
اعتبار ساجد