EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہش بو کرتے ہیں

عیش دہلوی




کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

عیش دہلوی




سینے میں اک کھٹک سی ہے اور بس
ہم نہیں جانتے کہ کیا ہے دل

عیش دہلوی




اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے

اعتبار ساجد




عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے
یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

اعتبار ساجد




برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

اعتبار ساجد




بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں
آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں

اعتبار ساجد