EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
اس سمندر میں کوئی اور سمندر گم ہے

رفیع رضا




ایک اجڑی ہوئی حسرت ہے کہ پاگل ہو کر
بین ہر شہر میں کرتی ہوئی دیکھی گئی ہے

رفیع رضا




کس نے روکا ہے سر راہ محبت تم کو
تمہیں نفرت ہے تو نفرت سے تم آؤ جاؤ

رفیع رضا




میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا

رفیع رضا




پڑا ہوا ہوں میں سجدے میں کہہ نہیں پاتا
وہ بات جس سے کہ ہلکا ہو کچھ زبان کا بوجھ

رفیع رضا




تو خود اپنی مثال ہے وہ تو ہے
اسی اپنی مثال میں مجھے مل

رفیع رضا




روح میں جس نے یہ دہشت سی مچا رکھی ہے
اس کی تصویر گماں بھر تو بنا سکتے ہیں

رفیق راز