EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جسے کہتے ہو تم اک قطرۂ اشک
مرے دل کی مکمل داستاں ہے

راغب مرادآبادی




خدا کاتب کی سفاکی سے بھی محفوظ فرمائے
اگر نقطہ اڑا دے نامزد نامرد ہو جائے

راغب مرادآبادی




آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

راحتؔ اندوری




اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

راحتؔ اندوری




بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

راحتؔ اندوری




بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

راحتؔ اندوری




بوتلیں کھول کر تو پی برسوں
آج دل کھول کر بھی پی جائے

راحتؔ اندوری