اک فلک اور ہی سر پر تو بنا سکتے ہیں
کرۂ ارض کو بہتر تو بنا سکتے ہیں
روح میں جس نے یہ دہشت سی مچا رکھی ہے
اس کی تصویر گماں بھر تو بنا سکتے ہیں
اشک سے خاک ہوئی تر یہی بس کافی ہے
ایک بے جان سا پیکر تو بنا سکتے ہیں
ہم اگر اہل نہیں پیڑ کے پھل کھانے کے
شاخ سر سبز کو خنجر تو بنا سکتے ہیں
سچ ہے ہم گریہ کناں کچھ بھی نہیں کر سکتے
ریگزاروں کو سمندر تو بنا سکتے ہیں
آتش و نور سے بجلی کے رہیں کیوں محروم
ہم سر دشت نیا گھر تو بنا سکتے ہیں
گرچہ پرواز کی قوت نہیں خواہش ہے بہت
ہم خیالات کو شہپر تو بنا سکتے ہیں
لالہ گوں منظر شاداب سرابوں میں بھی
قلزم خوں ہو میسر تو بنا سکتے ہیں
غزل
اک فلک اور ہی سر پر تو بنا سکتے ہیں
رفیق راز