آنکھ سہمی ہوئی ڈرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
امن کی فاختہ مرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
کیا بچا کتنا بچا تاب کسے ہے دیکھے
موج خوں سر سے گزرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
ایسے لگتا ہے یہاں سے نہیں جانے والی
جو سیہ رات ٹھہرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
دوسری بار ہوا ہے کہ یہی دوست ہوا
پر پرندوں کے کترتی ہوئی دیکھی گئی ہے
ایک اجڑی ہوئی حسرت ہے کہ پاگل ہو کر
بین ہر شہر میں کرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
موت چمکی کسی شمشیر برہنہ کی طرح
روشنی دل میں اترتی ہوئی دیکھی گئی ہے
پھر کنارے پہ وہی شور وہی لوگ رضاؔ
پھر کوئی لاش ابھرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
غزل
آنکھ سہمی ہوئی ڈرتی ہوئی دیکھی گئی ہے
رفیع رضا