EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ میری تمنا ہے پیاسوں کے میں کام آؤں
یا رب مری مٹی کو پیمانہ بنا دینا

رازؔ الٰہ آبادی




ہر اک شکست تمنا پہ مسکراتے ہیں
وہ کیا کریں جو مسلسل فریب کھاتے ہیں

راز مراد آبادی




کسی کے وعدۂ صبر آزما کی خیر کہ ہم
اب اعتبار کی حد سے گزرتے جاتے ہیں

راز مراد آبادی




رنگ و بو کے پردے میں کون یہ خراماں ہے
ہر نفس معطر ہے ہر نظر غزل خواں ہے

راز مراد آبادی




اگر گناہ کے قصے بھی کہہ دیئے تجھ سے
گناہ گار کو یا رب ثواب کیا ہوگا

راز یزدانی




سزا کے جھیلنے والے یہ سوچنا ہے گناہ
کوئی قصور بھی تجھ سے کبھی ہوا کہ نہیں

راز یزدانی




ٹھہر کے پاؤں کے کاٹے نکالنے والے
یہ ہوش ہے تو جنوں کامیاب کیا ہوگا

راز یزدانی