تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے
رفیق راز
ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں
اے خدا موسموں کی سانسیں کھول
رفیق سندیلوی
سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی
میں شام تلک جان کے خطرے میں رہوں گا
رفیق سندیلوی
بات تو جب ہے کہ جذبوں سے صداقت پھوٹے
یوں تو دعویٰ ہے ہر اک شخص کو سچائی کا
رفیق خیال
تفصیل عنایات تو اب یاد نہیں ہے
پر پہلی ملاقات کی شب یاد ہے مجھ کو
رفیق خیال
تم سمندر کے سہمے ہوئے جوش کو میرا پیغام دینا
موسم حبس میں پھر کوئی آج تازہ ہوا چاہتا ہے
رفیق خیال
حقیقت کو چھپایا ہم سے کیا کیا اس کے میک اپ نے
جسے لیلیٰ سمجھ بیٹھے تھے وہ لیلیٰ کی ماں نکلی
راغب مرادآبادی