EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے

رفیق راز




ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں
اے خدا موسموں کی سانسیں کھول

رفیق سندیلوی




سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی
میں شام تلک جان کے خطرے میں رہوں گا

رفیق سندیلوی




بات تو جب ہے کہ جذبوں سے صداقت پھوٹے
یوں تو دعویٰ ہے ہر اک شخص کو سچائی کا

رفیق خیال




تفصیل عنایات تو اب یاد نہیں ہے
پر پہلی ملاقات کی شب یاد ہے مجھ کو

رفیق خیال




تم سمندر کے سہمے ہوئے جوش کو میرا پیغام دینا
موسم حبس میں پھر کوئی آج تازہ ہوا چاہتا ہے

رفیق خیال




حقیقت کو چھپایا ہم سے کیا کیا اس کے میک اپ نے
جسے لیلیٰ سمجھ بیٹھے تھے وہ لیلیٰ کی ماں نکلی

راغب مرادآبادی