زمیں کا بوجھ اور اس پر یہ آسمان کا بوجھ
اتار پھینک دوں کاندھوں سے دو جہان کا بوجھ
پڑا ہوا ہوں میں سجدے میں کہہ نہیں پاتا
وہ بات جس سے کہ ہلکا ہو کچھ زبان کا بوجھ
پھر اس کے بعد اٹھاؤں گا اپنے آپ کو میں
اٹھا رہا ہوں ابھی اپنے خاندان کا بوجھ
دبی تھی آنکھ کبھی جس مکان حیرت سے
اب اس مکاں سے زیادہ ہے لا مکان کا بوجھ
اگر دماغ ستارہ ہے ٹوٹ جائے گا
چمک چمک کے اٹھاتا ہے آسمان کا بوجھ
تو جھریوں نے لکھا اور کیا اٹھاؤ گے
اٹھایا جاتا نہیں تم سے جسم و جان کا بوجھ
پلٹ کے آئی جو غفلت کے اس کرے سے نگہ
تو سلوٹوں میں پڑا تھا مری تھکان کا بوجھ
جو عمر بیت گئی اس کو بھول جاؤں رضاؔ
پر خیال سے جھٹکوں گئی اڑان کا بوجھ
غزل
زمیں کا بوجھ اور اس پر یہ آسمان کا بوجھ
رفیع رضا