خواب میں یا خیال میں مجھے مل
تو کبھی خد و خال میں مجھے مل
میرے دل کی دھمال میں مجھے دیکھ
میرے سر میری تال میں مجھے مل
میری مٹی کو آنکھ دی ہے تو پھر
کسی موج وصال میں مجھے مل
مجھے کیوں عرصۂ حیات دیا
اب انہیں ماہ و سال میں مجھے مل
کسی صبح فراق میں مجھے چھوڑ
کسی شام ملال میں مجھے مل
تو خود اپنی مثال ہے وہ تو ہے
اسی اپنی مثال میں مجھے مل
تیرے شایان شاں ہے وصف یہی
کسی وقت محال میں مجھے مل
میرے کل کا پتہ نہیں میری جاں
تو ابھی میرے حال میں مجھے مل
مجھے مل کر عروج دے یا نہ دے
میرے وقت زوال میں مجھے مل
غزل
خواب میں یا خیال میں مجھے مل
رفیع رضا