ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
اس سمندر میں کوئی اور سمندر گم ہے
بے بسی کیسا پرندہ ہے تمہیں کیا معلوم
اسے معلوم ہے جو میرے برابر گم ہے
چرخ سو رنگ کو فرصت ہو تو ڈھونڈے اس کو
نیلگوں سوچ میں جو مست قلندر گم ہے
دھوپ چھاؤں کا کوئی کھیل ہے بینائی بھی
آنکھ کو ڈھونڈ کے لایا ہوں تو منظر گم ہے
سنگ ریزوں میں مہکتا ہے کوئی سرخ گلاب
وہ جو ماتھے پہ لگا تھا وہی پتھر گم ہے
ایک مدفون دفینہ انہیں اطراف میں تھا
خاک اڑتی ہے یہاں اور وہ گوہر گم ہے
غزل
ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
رفیع رضا