یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
نوشی گیلانی
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا
نوشی گیلانی
اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا
نشور واحدی
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی
نشور واحدی
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
نشور واحدی
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
نشور واحدی
دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے
جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے
نشور واحدی