چلمن سے جو دامن کے کنارے نکل آئے
وارفتہ نگاہی کے سہارے نکل آئے
پیمانہ بکف ساتھ تمہارے نکل آئے
ہنگامۂ ہستی سے کنارے نکل آئے
اک سادگی حسن کی معصوم ادائیں
رنگین مضامیں کے اشارے نکل آئے
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
سب بھول گئے پیچ و خم ہوش میں رستہ
اس راہ پہ کچھ عشق کے مارے نکل آئے
سب ڈوب گئے تلخی ناکامی غم میں
کچھ آپ کے دامن کے سہارے نکل آئے
گستاخی باراں سے وہ پیراہن پر نم
بھیگے ہوئے جلووں سے شرارے نکل آئے
رخصت کے وہ آنسو وہ نگاہوں کی اداسی
تھی شام مگر صبح کے تارے نکل آئے
آنکھوں میں نظر آنے لگے خون کے آنسو
اٹھو کہ بس اب سرخ ستارے نکل آئے
رضواں سے بغاوت ہے نشورؔ اور مئے کوثر
عقبیٰ میں بھی کچھ کام ہمارے نکل آئے
غزل
چلمن سے جو دامن کے کنارے نکل آئے
نشور واحدی