میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار
گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں
نشور واحدی
نشورؔ آلودۂ عصیاں سہی پر کون باقی ہے
یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں
نشور واحدی
قدم مے خانہ میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے
جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے
نشور واحدی
سلیقہ جن کو ہوتا ہے غم دوراں میں جینے کا
وہ یوں شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے
نشور واحدی
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے
نشور واحدی
تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
اک سلسلۂ دار و رسن ہم نے بنایا
نشور واحدی
اسی کو زندگی کا ساز دے کے مطمئن ہوں میں
وہ حسن جس کو حسن بے ثبات کہتے آئے ہیں
نشور واحدی