EN हिंदी
وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے | شیح شیری
wo baat baat mein itna badalta jata hai

غزل

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے

نوشی گیلانی

;

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے
کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے

یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے

رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے

رہا جو دھوپ میں سر پر مرے وہی آنچل
ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا جاتا ہے

وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے
تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے