EN हिंदी
ہر ذرۂ خاکی کو کرن ہم نے بنایا | شیح شیری
har zarra-e-KHaki ko kiran humne banaya

غزل

ہر ذرۂ خاکی کو کرن ہم نے بنایا

نشور واحدی

;

ہر ذرۂ خاکی کو کرن ہم نے بنایا
مٹی کو لہو دے کے چمن ہم نے بنایا

تھا حسن مگر اک نگۂ نیم رضا سے
گیسو بہ کمر لالہ شکن ہم نے بنایا

صد شکر کہ ہے ان کا تبسم بھی ہمیں پر
کلیوں میں جنہیں غنچہ دہن ہم نے بنایا

اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا

ہر جذبۂ آزادیٔ فطرت کو ہوا دی
ہر بادۂ پیمانہ شکن ہم نے بنایا

تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
اک سلسلۂ دار و رسن ہم نے بنایا

ڈرتے ہیں خموشی سے ہماری مہ و انجم
چپ رہ کے وہ انداز سخن ہم نے بنایا

ٹکرائے کبھی موج سے ساحل پہ کبھی ہیں
بہتے ہوئے دریا میں وطن ہم نے بنایا

مستقبل تہذیب کا نغمہ وہی ٹھہرا
جو زمزمۂ گنگ و جمن ہم نے بنایا

اشکوں سے ہمارے ہے منور نئی دنیا
شبنم کو ضیا دی تو کرن ہم نے بنایا

آفاق کا ہر جلوہ نشورؔ اس میں عیاں ہے
مل جل کے وہ آئینۂ فن ہم نے بنایا