EN हिंदी
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا | شیح شیری
mohabbaten jab shumar karna to sazishen bhi shumar karna

غزل

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

نوشی گیلانی

;

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا

جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا

جو حرف لوح وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا

یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا

تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمار کرنا