EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

احمد مشتاق




کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں
ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

احمد مشتاق




کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا

احمد مشتاق




کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

احمد مشتاق




میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

احمد مشتاق




میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے

احمد مشتاق




موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

احمد مشتاق