EN हिंदी
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا | شیح شیری
chand is ghar ke darichon ke barabar aaya

غزل

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا

احمد مشتاق

;

چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دل مشتاق ٹھہر جا وہی منظر آیا

میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

بجھ گئی رونق پروانہ تو محفل چمکی
سو گئے اہل تمنا تو ستم گر آیا

یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا